Al-Kitab Foundation Al-Kitab Foundation

المیے سے بڑا المیہ یہ ہے کہ شامی معصوموں کا نوحہ لکھنے والا بھی کوئی نہیں

 

--افتخار عالم گریڈیہ--

عروج کا تاج ہم نے کبھی پہنا ہی نہیں سر پہ، ہماری معصومیت ہی کچھ ایسی ہے کہ دوست بھی دشمنی نبھاتے ہیں اور نبھا رہے ہیں!
جب ہم تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو ہمیں اسلامی تاریخ کا شاندار باب نظر آتا ہے اسلامی اخوت و ہمدردی کی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ دل باغ باغ ہو جاتا ہے اسلامی اقدار و روایات کی ایسی داستانیں رقم ہیں جس کا نقش صدیوں پر محیط ہو جاتا ہے اسلامی مجاہدین اور جرنیل وہ کارنامہ سرانجام دیتے ہیں کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے اور یہ سلسلہ کئی صدی پر محیط ہے اور یہی لوگ امت مسلمہ کا حقیقی مصداق بھی ہیں لیکن افسوس!
اسلامی اقدار و روایات کا ماضی جتنا روشن نظر آتا ہے مستقبل اتنا ہی تاریکی میں ڈوبا ہوا محسوس ہوتا ہے تاریخ اندلس ہی کو لے لیجیے ماضی شاندار تابناک ہے لیکن مستقبل بھیانک نتائج سے دو چار ہے
 ____ لیکن یہاں اک سوال ابھر کر سامنے آ تا ہے کہ سقوط غرناطہ کے وقت امت مسلمہ کہاں تھی جب اندلس کے اینٹ سے اینٹ بجائی جا رہی تھی کس خواب میں محو تھے اس وقت کا مسلمان کس دھرتی پر گل چھریاں اڑا رہے تھے دل تو کرتا ہے اس دور کے سارے مسلمانوں سے جھنجھوڑ کر اس سوال کا جواب طلب کروں کہ آپ لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی طارق ابن زیاد کا وہ شہر کیسے لٹ گیا ارے طارق ابن زیاد نے تو اک غیر مسلم مظلومہ کی فریاد رسی کے لیے سات سمندر پار کر کے اسلامی اخوت کی نشان ٹھونک دی کشتیاں تک جلا ڈالیں آخر آپ لوگوں نے اسے تنہا روتا بلکتا برباد ہونے کے لیے کیوں چھوڑ دیا دل بے چینی سے ان سوالوں کا جواب طلب کرتا ہے لیکن ان سارے سوالوں کا جواب ہم میں سے ہر ایک کے پاس موجود ہے قضیہ بیت اقدس ہمارے سامنے ہے ملک شام کی دلخراش منظر ہمارے رونگٹے کھڑے کر رہے ہیں کشمیر ہماری آنکھوں کے سامنے شعلہ اگل رہا ہے اور کیا کیا شمار کراؤں اور کس کس کا رونا روؤں کس کس کا گریبان پکڑوں کس کس سے جواب طلب کروں ہر ایک جواب دہ ہے اس لیے مجھے کہنے دیجیے کہ امت مسلمہ کا وجود خلافت کے بعد ہی معدوم ہو چکی تھی اور   برسوں سے اک شور ہے کہ امت مسلمہ کہاں ہیں؟ اور ہمیشہ کی طرح آج بھی یہ آواز صدا بصحراء ثابت ہو رہی ہے امت مسلمہ یہ اک ایسا اسم ہے جس کا کوئی مسمی نہیں آج ریاستیں تو موجود ہیں سعودی قطر مصر وغیرہ گروہ تو موجود ہیں وہابی دیوبندی بریلوی وغیرہ لیکن بد قسمتی سے کوئی  امت مسلمہ کا حقیقی مصداق نہیں اس لئے یہ آواز صدا بصحراء ثابت ہو رہی ہے اور اس اس کا کوئی نتیجہ نکل کر سامنے نہیں آریا ہے! لیکن اب دنیا میں ایک نئ تقسیم وجود میں لانا ہوگا  اور وہ ہے ظالم مظلوم، قاتل مقتول، جارح مجروح، کی تقسیم اس لیے اب ہمیں اس حقیقت پر غور کرنا پڑے گا اور ہر ظالم قاتل جارح کے خلاف اور ہر مظلوم مقتول مجروح کے حمایت میں کھڑے ہونا پڑے گا،،

اب نہ کھولوں گا کبھی ضبط کے بندھن مولا
جس کا دل چاھے وھی آکے ستا لے مجھ کو

میری گستاخ مزاجی سے ھے برھم دنیا
کر یہ احسان تو دنیا سے اُٹھا لے مجھ کو

✍ افتخار عالم گریڈیہ جھارکھنڈ

Sign in to publish a comment

0 comment

Be the first to comment on this post.